تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں

63 / 100

 تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں

تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں

تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں …..وہ بات چیت جو ہم دوسروں سے کرتے ہیں اس سے زیادہ اہم وہ بات چیت ہے جو ہم خود سے کرتے ہیں۔ اسے خود کلامی کہتے ہیں، انگلش میں اس کو Auto Suggestion کہتے ہیں۔ دراصل ہم جب خود سے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں تو ہم خود کو نئے چیلنج اور حالات کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔

دنیا کا ہر بڑا انسان پہلے خود اپنے آپ کو مانتا ہے، پھر بعد میں اپنی عملی جدوجہد کے ذریعے دنیا سے اپنا آپ منواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم ﷺکو بھی فرمایا کہ ’’آپ یقینا رسولوں میں سے ہیں۔‘‘ اور آپ ﷺکو اپنے رسول ہونے کا پورا یقین تھا، آپﷺ نے حنین کے دن فرمایا تھا:
       (( أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ ))
’’ میں نبی ہوں، یہ کوئی جھوٹی بات نہیں۔‘‘
لہٰذا آپ کی خود کلامی آپ کے اندر سوئے ہوئے ’’جذبے‘‘ کو جگا دیتی ہے۔ سوئے ہوئے کا جاگنا اتنا اہم نہیں جتنا کسی جاگے ہوئے کا بیدار ہونا اہم ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ اچھے جملے اور فقرے کہنے چاہییں۔ یعنی آٹو سجیشن ہمیشہ خود سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں کہ آپ ایک بڑے مقصد کے لیے پیدا ہوئے ہیں…!۔

 سجیشن دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک autosuggetions اور دوسرا heterosuggestions۔ Autosuggestions وہ جو ہم خود کو دیتے ہیں یعنی خود سے خود کلامی کرنا خود سے باتیں کرنا اور خود کو محسوس کرانا کہ جو آپ اپنے لئے سوچ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں آپ ویسے ہی ہیں اور آپ کے ساتھ ویسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ autosuggestions مثبت بھی ہو سکتی ہیں اور منفی بھی۔ منفی جملے مثال کے طور پر

میں اب زیادہ جی نہیں پاؤں گا٬ میں اب ٹھیک نہیں ہو سکتا٬ میں تو کچھ کر نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔

اور مثبت خود کلامی مطلب میں دن بہ دن بہتر ہوتا جا رہا ہوں ٬ میں صحت مند ہوں اور صحت مند اور خوش باش زندگی جی رہا ہوں ٬ ہر وہ چیز جس کی مجھے ضرورت ہے بغیر کسی جدوجہد کے مجھے مل رہی ہے۔

ان autosuggestions کو affirmations کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ Heterosuggestions وہ جو دوسرے آپ کو دے رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرتم کبھی کچھ نہیں کر سکتے ٬ تم تو بے وقوف ہو۔ یہ منفی کلام ہیں جو ہم دوسروں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ہم دوسروں کے لئے مثبت الفاظ کا چناؤ بھی کر سکتے ہیں جیسے :

تم بہت اچھے ہو٬ تم بہتر ہوتے جا رہے ہو۔ وہ لوگ جن کے گھر میں کوئی فرد کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جائے یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو اور مایوس کن رہتا ہو ان کو چاہیے کہ وہ ان سے مثبت کلامی کریں۔ جیسے : تم دن بہ دن بہتر ہوتے جا رہے ہو٬ تم بہت خوبصورت ہو٬ تم اچھی باتیں کرتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح بیمار کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے مثبت خود کلامی کرے جیسے : میرے جسم کا ایک ایک حصہ اپنا کام بہت اچھے سے سرانجام دے رہا ہے ٬ میں بہت خوبصورت ہوں ٬ میں ایک صحت مند زندگی گزار رہا ہوں۔

ہمارے لفظوں کا ہمارے جسم پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ناکہ صرف اس سے ہماری جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بھی ان منفی اور مثبت کلامی کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔

ہمارا ذہن منفی چیزوں کو سوچنے کا اتنا عادی ہو چکا ہوتا ہے کہ اگر اس سے کوئی مثبت بات کہی جائے تو وہ اس سے انکار کرتا ہے بہت resistance پیدا ہوتی ہے لیکن آپ یہ سوچ لیں اور یقین کر لیں کہ آپ خود سے جو بول رہے ہیں وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہے اور خود کے لئے اچھا محسوس کرنا شروع کر دیں۔ آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کے لفظوں کا آپ کی جسمانی اعضا اور صحت پر جادوئی اثر ہو گا۔ ہم اپنے لیے جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔

اگر آپ مایوسی کا شکار ہیں تو اس سے نا صرف آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہوگی بلکہ آپ اپنی زندگی میں برے اور مایوس کردینے والے حالات کو ہی کھنچے گے۔ اگر آپ کی زندگی میں کبھی کوئی برا واقعہ یا حادثہ درپیش آ جاتا ہے تو ان سے نکلنے کی کوشش کریں اور خوش باش رہنا سیکھیں کیونکہ ہماری منفی سوچوں کا ہماری زندگی اور صحت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔

تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں عظیم زندگی کا آغاز ہی اس تصویر سے وابستہ ہے جو آپ کے تخیل میں موجود ہے کہ آپ کو کیا کرناہے اورکیسا بننا ہے؟
دنیا کے تمام ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن میں یہ خوبی و خصوصیت رکھی ہے اگر بڑے سے بڑا مقصد بذریعہ آٹو سجیشن اس میں فیڈ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اس پر بالکل اسی طرح عمل درآمد کرتا ہے جیسے آپ مکان کا نقشہ کاری گر کو دے کر اسے تعمیر کے لیے کہتے ہیں۔
دنیا میں ہر چیز دوبار بنتی ہے، ایک بار کسی کے ذہن میں دوسری بار حقیقت (دنیا) میں۔ اگر آپ کے ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں ہے تو حقیقت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو تصور (Imagine) کرسکتا ہے۔آپ کے اچھے تصورات ہی آپ کی زندگی کے معیار کا تعین کرتے ہیں، اس لیے پہلے ذہن میں کامیاب ہونے کا نقشہ بنایے، پھر اس کو حقیقت میں بدلنے کا سوچیے۔
اپنے ذہن کی سکرین پر مطلوبہ ہدف کو مکمل ہوتا دیکھیں۔آپ کا ہدف ملازمت کے لیے انٹرویو، کمرہ امتحان میں پیپر کا حل، کسی شخص سے ملاقات میں مطلوبہ مقاصد کا حصول غرض کہ جیسی آپ آئیڈیل شخصیت بننا چاہتے ہیں خود کو اس طرح بنتے ہوئے تصور میں دیکھیں، آپ ضرور کامیاب ہوں گے

آپ کوئی بھی کام یا کوئی بلند مقصد ذہن میں فیڈ کرتے ہیں تو آپ کو اپنے اس لاشعور پر مکمل بھروسا ہونا چاہیے تاکہ وہ کھل کر کام کر کے آپ کو مطلوبہ ٹارگٹ تک پہنچا سکے۔ اعتماد و بھروسا اس لیے ضروری ہے کہ لاشعور، شعور کی سطح کے نیچے رہ کر کام کرتا ہے۔ اس لیے خود کو پتا نہیں چلتا کہ زیر سطح کیا ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی سطح ہی ضرورت کے مطابق بے ساختہ کام کرنے میں ہے۔

ہم شعوری طور پر اپنے اس لاشعور میں جھانک سکتے ہیں کہ اس کا    گئیرکامیابی کے لیے لگا ہے یا نہیں لیکن ہم جذبات کے ذریعے سے اس کی حالت کا تعین کر سکتے ہیں۔ جب یہ کامیابی کے لیے مصروف عمل ہوتا ہے تو ہمیں اس کا احساس ضرور ہوتا ہے۔

تصور میں خود کو کامیاب ہوتا دیکھیں آپ جیسا  بننا چاہتے ہیں اس کا اپنے ذہن میں ایک واضح تصور قائم کریں اور زندگی کے منصوبے کی یہ ذہنی تصویر حرکت پذیر ہو کر آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گی حقیقت میں توجہ کی صلاحیت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو تصور میں اس صلاحیت کا حامل پائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *