ٹیلی پیتھی اور ذاتی واقعات

12 / 100

ٹیلی پیتھی اور ذاتی واقعات

ذاتی واقعات


حادثہ سے قبل آگاہی:
ایک دفعہ میں لاہور جانے کے لیے گوجرانوالہ سے گاڑی پر بیٹھا۔ جب گاڑی سادھوکی کے قریب پہنچی تو میری طبیعت میں بے چینی سی پیدا ہونے لگی۔ ایسا لگتا تھا کہ گاڑی الٹ جائے گی۔ دل چاہتا تھا کہ جلدی سے اتر جائوں لیکن میں نے مناسب نہیں سمجھا، بالآخر سادھوکی اسٹیشن آ گیا۔
میں جلدی سے نیچے اتر گیا اور پھر چند منٹ بعد دوسری گاڑی پر لاہور روانہ ہوا۔ جب ٹیوٹا مرید کے کی حدود میں داخل ہوا تو وہاں پر کافی لوگوں کا رش تھا۔ سواریوں نے نیچے اتر کر معلوم کیا کہ کیا معاملہ ہے؟ وہاں پر موجود لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ ایک گاڑی کا ٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میں نے غور سے گاڑی دیکھی تو یہ وہی گاڑی تھی جس پر میں پہلے سوار ہوا تھا۔

دوست کو ملنے سے قبل ذہنی رابطہ:
ایک دفعہ میں راہوالی جانے کے لیے گاڑی پر بیٹھا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے پتا کروں کہ جس دوست کو ملنے جانا ہے وہ گھر پر ہے یا نہیں۔ میں نے گاڑی پر ہی اپنے دوست کاشف کا تصور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ میں نے اپنے طور پر اسے پیغام دیا کہ میں تمھیںملنے کے لیے آ رہا ہوں اس لیے کہیں اور نہ جانا۔ جب میں راہوالی پہنچا تو وہ جلدی سے میری طرف آیا اور کہنے لگا کہ مجھے آپ کا پیغام مل چکا ہے۔ مجھے انتہائی مسرت ہوئی۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ کن الفاظ میں تم تک میرا پیغام پہنچا۔ جس ترتیب سے میں نے اسے پیغام پہنچایا تھا، اس نے اسی ترتیب سے دہرا دیا۔

دوست کو بلانے کا ذہنی پیغام:
 1990ء کا واقعہ ہے کہ مجھے اپنے ایک قریبی دوست سے انتہائی ضروری کام تھا۔ میں نے اس کا تصور قائم کر کے پیغام دیا کہ میں سخت بیمار ہوں گھر جلدی پہنچو۔
کافی دیر انتظار کے بعد جب میرا دوست (محترم عبیدالرحمن) نہ پہنچا تو میں نے دوبارہ کوشش کی لیکن اس مرتبہ بھی انتظار کے بعد جب نہ آیا تو میں نے تیسری بار تصور کیا کہ وہ کیوں نہیں آ رہا تو اچانک وہ تصور میں ہمارے گھر کی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔جب وہ دروازے پر پہنچا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے اندر سے آواز دی۔ عبیدالرحمن صاحب اندر آ جائیں۔ بعد میں عبیدالرحمن نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر سوچ رہا تھا کہ مصطفٰے بھائی کی خیریت معلوم کی جائے۔ اور آپ کا پیغام بھی 3 بار مجھے ملا اور مجھے ایسے محسوس ہوا کہ آپ مجھے بلا رہے ہیں۔
کراچی سے گوجرانوالہ ذہنی رابطہ:
کراچی رہتے ہوئے مجھے ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک ضروری کام سے گوجرانوالہ آنا پڑا۔ میں نے سوچا کہ ذہنی رابطہ کر کے اس کی نوعیت معلوم کر لی جائے۔ میں بڑے اعتماد سے تمام شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے رات 10 بجے ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا اور 5 منٹ کی کوشش کے بعد میں رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اور واپس گوجرانوالہ آنے پر اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔

بس میں آگے بیٹھے ہوئے نوجوان کے ذہن میں پیغام رسانی:
جب میں نے ٹیلی پیتھی کی مشقیں شروع کی تھیں تو اس کے ساتھ ہی عملی تجربات کا سلسلہ تھوڑا بہت شروع کردیا۔ ایک دفعہ بس میں اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے نوجوان کو میں نے پیغام دیا کہ وہ پیچھے میری طرف دیکھے چند منٹ بعد میں اس میں کامیاب ہو گیا۔
 وہ مجھے پیچھے گھوم کر بڑے غورسے دیکھنے لگا۔ اس کے بعد میں نے مزید پیغام دیا کہ اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہو جائو اور ساتھ کھڑے بزرگ کے لیے جگہ خالی کر دو۔

 اس نے ویسے ہی کیا پھر میں نے اس کے ذہن میں خواہش پیدا کی کہ وہ سوچے کہ اس نے جو نشست خالی کی ہے وہ کیوں خالی کی ہے؟ میں بڑے غور سے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ پریشان ہو گیا کہ بیٹھے ہوئے اس نے نشست کیوں خالی کر دی۔
میں نے دوبارہ ذہنی رابطہ کیا اور اس کے ذہن میں یہ سوچ پیدا کی کہ ’’بزرگوں کا احترام لازم ہے، میں نے سیٹ دے کر بہت اچھا کیا ہے اس طرح کل کوئی میرے والد کا بھی خیال کرتے ہوئے عزت سے نوازے گا۔‘‘ ان خیالات کو اس کے ذہن میں پیدا کرنے کے بعد جب اس کا مشاہدہ کیا گیا تو اس کا چہرہ کافی پر سکون اور ذہنی طور پر جو چند لمحے پہلے پریشان تھا اب مطمئن ہو گیا۔

ذہنی رابطے سے 5000 روپے کا انعام
کچھ عرصہ پہلے میری ملاقات ادارہ صراط مستقیم کے نگراں مولانا اختر محمدی سے ہوئی، انھوں نے مجھے کہا کہ بذریعہ ٹیلی پیتھی بتائیں کہ میں آپ سے کیا گفتگو کرنے والا ہوں، اگر آپ نے صحیح بتایا تو میں آپ کو 5000 روپے انعام دوں گا۔
میں نے بتایا کہ محمدی صاحب آپ جسٹس (ر) شفیع محمدی صاحب کی بنائی گئی تنظیم الامنا کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ محمدی صاحب نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے وعدہ کے مطابق 5000 روپے بطور انعام مجھے دیئے۔

پیغام رسانی سے کھانے کی خواہش کا معلوم ہونا:
چندسال قبل میں دارالفلاح کے ہیڈ آفس میں ٹیلی پیتھی کے متعلق گفتگو کر رہا تھا کہ حافظ عبدالوحید صاحب (امیر دارالفلاح) اور دیگر ساتھی بیٹھے تھے کہ ایک ساتھی نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ اس وقت ہم کیا کھانا چاہتے ہیں۔ میں چند لمحے خاموش رہا اور انھیں کہا کہ آپ فروٹ کیک کھانا چاہ رہے ہیں۔حافظ صاحب سمیت سب حیرن رہ گئے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *