ٹیلی پیتھی پاور کیسے کام کرتی ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ کے حق میں فیصلہ کر دیاہے۔
’’اور تمھارے لیے مسخر کر دیا جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سارے کا سارا۔‘‘ (البقرۃ)
اور اس کے ساتھ فرمایا کہ :
’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘ (القرآن)
اللہ تعالیٰ نے ا نسان کوذہن جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے جس میں انسان جس شکل، جس جگہ، جس مقام کو چاہے دیکھ سکتا ہے اور جس سے، جب چاہے (Mind to Mind Link) (مائنڈ ٹو مائنڈ لنک) کر سکتاہے۔ علم ٹیلی پیتھی انسانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے پروان چڑھانے کا موقع فراہم کرتاہے۔ یہ وہ روحانی اور سائنسی علم ہے جس کے ذریعے سے ایک ذہن بالکل واضح طور پر دوسرے ذہن سے رابطہ کر کے اس کے خیالات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ چاہے وہ ہزاروں میل کے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو اس کی قوت زمان و مکاں کے فاصلوں سے آزاد ہے۔
ایمرسن کہتے ہیں۔ ’’شہنشاہت درحقیقت ان لوگوں کی نہیں جو تخت پر بیٹھے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا وصف ہے جو اپنے خیالات پر حکومت کرتے ہیں۔‘‘
ٹیلی پیتھی کا نظریہ مشہور ماہر طبیعات آئن سٹائن کے نظریہ توانائی یعنی E=mc2
(توانائی = کمیت × روشنی کی رفتار2) کے عین مطابق ہے۔ یعنی اگر کمیت (MASS) کو روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت میں لایا جائے تویہ کمیت روشنی یا توانائی میں بدل جاتی ہے۔ ٹیلی پیتھی پیراسائیکالوجی کی ایک شاخ ہے اور یہ علم روس، امریکہ سمیت مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ایک محقق رابرٹ نائیٹ کا کہنا ہے کہ دماغ سے نکلنے والی لہروں کو پڑھنے کے 2طریقے ہیں
1۔پہلا بنیادی سائنسی طریقہ کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔
جب انسان مخصوص مشقوں کے ذریعہ سے اپنی دماغی قوتوں کو بیدار کرتا ہے توانسانی دماغ کی کارکردگی و قوت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان مشقوں کا تعلق براہ راست اعصاب اور دماغ سے ہوتا ہے۔ انسانی دماغ سپر کانشیئنس کی سطح پر اس وقت کام کرتا ہے جب قوت توجہ کافی بڑھ جاتی ہے جب ہم توجہ کی قوت بڑھانے کے لیے کسی بھی مقرر چیز کو نظریں جما کر غور سے دیکھتے ہیں تو دماغ کے مرکز احساسات میں آہستہ آہستہ ہیجان پیدا ہو جاتا ہے اور اعصاب محرکہ کے ذریعے سے خیالات کی طاقت ایک مرکزی نقطہ پر سمٹنے لگتی ہےجیسے محدب شیشے کے ذریعے سے سورج کی کرنیں ایک نقطہ پر جمع ہو جاتی ہیں ایک نقطہ پر ذہن کی فعالیت اور سرگرمی کو مرکوز کر دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عملی طورپر شعور سست ہو جاتاہے اور استغراق کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے انسان میں ادراک ماورائے حواس کی صلاحیتیں جاگنے لگتی ہیں۔
مختصر یہ کہ جب انسان توجہ کی مشق میں کسی ایک نقطہ پر اپنا پورا فوکس کرتا ہے اور اسے پلک جھپکائے بغیر توجہ سے دیکھتا ہے تو اس کے نتیجے پچوٹری گلینڈ (Pitutary gland) کی قوت ایکٹیو ہونا شروع ہو جاتی ہے مشق کرنے والے انسان پر استغراق کی کیفیت طاری ہونے لگتی اور پچوٹری گلینڈ کی قوت بڑھتی جاتی ہے پھر ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد ذہن کا دوسرا گلینڈ پینیل گلینڈ(Pineal Gland) کی پرواز شروع ہو جاتی ہے۔ ذہن کا دوسرا گلینڈ پینیل گلینڈ شعور برتر کا مرکز ہے۔ پی نیل گلینڈ لاشعور کا مرکز ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں پر پہنچ کر انسان کی پوشیدہ، پراسرار قوتوتیں جاگنا شروع ہو جاتی ہیں اور انسان اپنا پیغام دوسرے ذہن تک پہنچا سکتا ہے اور اس کے خیالات سے آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔
2۔دوسرا طریقہ دماغ میں مصنوعی آلات لگا کر سننے کا طریقہ یعنی ایسے افراد جو بول نہیں سکتے دماغ میں لگائے جانے والے آلات کی مدد سے جو کچھ کہنا چاہیں گے اس کا تصور کریں گے اور کمپیوٹر ان کو الفاظ میں ڈال دے گا۔اس تحقیق سے مستقبل میں دماغی بیماریوں کا شکار یا صحیح طریقے بولنے سے معذور افراد کی باتیں سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
عالمی شہرت یافتہ ادیب مارک ٹوئین نے ٹیلی پیتھی کی ایک نئی اصطلاح ’’ذہنی اشراق‘‘ استعمال کی، اس نے لکھا کہ ’’جب میں کسی ملاقاتی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتا تو میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتا اور کاغذ پر تحریر کرتا کہ مجھے فوراً لکھو کہ تم ملنا چاہتے ہو یا نہیں اور میں اسے لکھنے پر مجبور کر دیتا۔ اور میں اس تحریر کو پھاڑ دیتا۔ اس طرح میرے خیالات اس شخص تک پہنچ جاتے اور وہ فوراً جواب لکھنے پر مجبور ہو جاتا۔‘‘
لوگوں کا کہنا تھا کہ مارک ٹوئین کو اس کوشش میں ہمیشہ کامیابی ہوتی اور جب بھی اسے جواب موصول ہوتا وہ خط کھولے بغیر یہ بتا دیتا کہ اس میں کیا لکھاہے۔
ایک مرتبہ جب اسے مکمل یقین ہو گیا کہ ایک ذہن بالکل واضح طور پر دوسرے ذہن سے ترسیل خیالات کے ذریعے سے رابطہ کر سکتا ہے، تو اس نے اس طریقہ کار کو ذہنی ٹیلی گرافی کا نام دیا اور اس کی تحقیق کے رزلٹ میں جو ایجاد سامنے آئی وہ فیرنون کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ایک ذہن سے دوسرے ذہن کے خیالی رابطہ کو باقاعدہ اور یقینی بنانے کا علم ہے۔
ڈننجر(Duninger) ٹیلی پیتھی پر مہارت کی مثال ہے۔ اس نے اس علم پر مہارت اپنے سکول کے زمانہ میں حاصل کی۔ وہ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے طلبہ کے ذہنی خیالات پڑھ کر سوالات کا حل معلوم کرتا تھا۔ 18 برس کی عمر میں اس نے اسٹیج پر اس تکنیک کے ذریعے سے اسٹین میز کا ذہن پڑھ کر لوگوں کو حیران کر دیا۔
Steinmetsنے ایک انجن ایجاد کیا اور اس انجن کا ڈیزائن کاغذ پر لپیٹ کر ایک ڈبے میں بند کردیا۔ ڈننجر نے ٹیلی پیتھی کی قوت سے انجن کی تمام تفصیلات مجمع میں بتا کر سب کو حیران کر دیا۔ بعد میں وہ حاضرین کے سوالات سنتا اور ان کے جوابات دیتا۔
ٹیلی پیتھی کی قوت رکھنے والوں میں مشہور و معروف شخصیت ڈاکٹر ڈیوڈ ہوئے David Hoy کی بھی ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ ہوئے کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔ ان کی حیرت انگیز قوتوں کا مظاہرہ لاکھوں افراد ٹیلی ویژن اور مجمع عام میں دیکھ چکے ہیں۔ ڈیوڈ ہوئے امریکہ کی ریاست انڈیانا کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔
ڈیوڈ ہوئے نے اپنی اسی قوت کی وجہ سے 10 مارچ 1952ء کی صبح اپنے والد کے انتقال کی خبر اپنے ایک کلاس فیلوکو قبل ازوقت دی تھی۔
امریکہ میں سائنسدانوں نے دماغ سے نکلنے والی لہروں کو پڑھنے اور خیالات کو الفاظ کی شکل دینے کی جانب پہلا قدم بڑھا لیا ہے۔اس سے یہ ممکن ہو سکے گا کہ کسی شخص کے کچھ بولنے سے پہ؛ے ہی یہ جانا جا سکے گا کہ وہ کیا کہنے جا رہا ہے۔
سائنسدانوں نے یہ آلات دماغ کے اس حصے میں لگائے جو زبان پر کام کرتا ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والے پیچیدہ برقی سنگلنز کو کمپیوٹر کی مدد سے صوتی لہروں میں بدل کر اسے ’’ڈی کوڈ‘‘کیا گیا اور یوں اسے الفاظ اور جملوں کی شکل میں سنا جا سکا۔
جاپانی سائنسدانوں نے بھی ایک نیا آلہ بنایا ہے جودماغ کے اندر کی تصاویر کو کمپیوٹر کی سکرین پر دکھا سکتا ہے۔سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ عرصہ بعد اس ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں کے خوابوں کو بھی دیکھا جا سکے گا ۔اور بعد ازاں ان کو پڑھا بھی جا سکے گا۔
جاپانی تحقیق کاروں نے ایف ایم آئی آرمشین کی مدد سے لوگوں کے دماغ کے ایک مخصوص حصے میں خون کے دبائو میں کمی بیشی کو ناپا،جو مختلف تصاویردیکھتے رہے دماغ کا یہ حصہ تصاویر کا مشاہدہ کرنے کا کام کرتا ہے۔تجربے مین حصہ لینے والوں کو 12,12سیکنڈتک چار سو سیا ہ سفید تصاویر دکھائی گئیں، جس کے دوران مشین ان کے ذہن کے مخصوص بصری حصے میں خون کے دباؤ کا جائزہ لیتی رہی،اسی دوران ایک کمپیوٹرتمام ڈیٹااخذ کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہاکہ کون سی تصویریں دیکھنے سے دماغ میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔اس کے بعد جب ان افراد کو بالکل مختلف تصاویر دکھائی گئیں،توکمپیوٹرصرف دماغی صورت حال کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بتانے میں کامیاب ہو گیاکہ یہ افراد کون سی تصاویر دیکھ رہے تھے۔
ایک اور سائنسدان ڈاکٹرکانگ چینگ کہتے ہیں کہ یہ نتائج دماغی کارکردگی کو سمجھنے میں بہت اہم پیش رفت ہیں۔انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ بہت جلد انسانی دماغ کو پڑھنے والی مشین تیار کر لی جائے گی۔
اگست میں2013ہارورڈیونیورسٹی کے محقیقن ڈاکٹر راجیش راؤ(Rajesh Rao)اور اینڈریا اسٹوکو(Andrea Stocco) سائنسدانوںنے پہلے ذہن سے ذہن تک کمیونی کیشن انٹر فیس کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے۔
راؤ نے TMS ہیلمٹ پہنا جبکہ اینڈریا نے EEG دونوں ایک ساتھ بیٹھے گیم دیکھ رہے تھے راؤنے سپیس بار دبا کر فائر کرنے کے لیے بجائے اپنا ہاتھ استعمال کرنے کے صرف ذہن میں سوچا کہ وہ اپنے ہاتھ کو سپیس بار دبانے کے لیے حرکت دے رہا ہے اسی وقت اینڈراکے دماغ اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اس سسٹم میں ایک شخص کے ہاتھوں کی حرکت دوسرا شخص کنٹرول کر سکتا ہے۔
اس تحقیق میں سب سے اہم یہ ہے کہ کسی شخص کے جسم کے اندر کوئی الیکڑانک آلہ نسب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی یہ سارا سسٹم بیرونی آلات کے ذریے کام کرتا ہے
واشگٹن یونیورسٹی میں تیار کردہ ٹیلی پیتھی جیسا یہ نظام انتہائی سادہ اصولوں اور طریقوں پر کام کرتا ہے۔
جرمن دارلحکومت برلن کی ایک یونیورسٹی میں ایک سائنسدان نے برلن ہوف ہوئی اڈے پر ٹیلی پیتھی کے ذریعے دماغی لہروں کی مدد سے گاڑی چلانے کا مظاہرہ کیا ۔
برلن فری یونیورسٹی کے مطابق اس سائنسدان نے گاڑی چلانے ،روکنے اورا سٹیرنگ کنٹرول کرنے کا مظاہرہ کیا ۔
برلن کے ایک آئی ٹی ماہرین انسانی آنکھ اور موبائل کے ذریعے بھی گاڑی کو کنڑول کرنے کا کامیاب مظاہرہ کر چکے ہیں۔
پوری دنیا میں ان گنت اداروں میں ریسرچ اور تجربات جاری ہیں۔ جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں ۔
1- Harvard University
2- Duke University
3- City College City University of new york
4- University of California Los Angeles
5- Mc Gill University, Montreal
6- University of Leningrad
7- Cambridge University
8- University of Amsterdam
9- University of Gotenberg Sweden
10- Cornell University
11- University of Edinburgh ,scotland
12- Stanford University

